thumbnail

عملِ ناقص









کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے۔





(قدرت اللہ شہاب کی کتاب "شہاب نامہ" سے اقتباس)


thumbnail

کوشش و جدوجہد








کہتے ہیں کہ ایک چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی سے پوچھا کہ"آپا یہ سمندر کہاں ہوتا ہے؟“ اُس نے کہا جہاں تم کھڑی ہوئی ہو یہ سمندر ہے- اُس نے کہا، آپ نے بھی وہی جاہلوں والی بات کی۔ یہ تو پانی ہے، میں تو سمندر کی تلاش میں ہوں اور میں سمجھتی تھی کہ آپ بڑی عمر کی ہیں، آپ نے بڑا وقت گزارا ہے، آپ مجھے سمندر کا بتائیں گی- وہ اُس کو آوازیں دیتی رہی کہ چھوٹی مچھلی ٹھہرو،ٹھہرو میری بات سُن کے جاؤ اور سمجھو کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں لیکن اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور چلی گئی- بڑی مچھلی نے کہا کہ کوشش کرنے کی، جدّوجہد کرنے کی، بھاگنے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، دیکھنے کی اور Straight آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے- مسئلے کے اندر اُترنے کی ضرورت ہے- جب تک تم مسئلے کے اندر اُتر کر نہیں دیکھو گے، تم اسی طرح بے چین و بےقرار رہو گےاور تمہیں سمندر نہیں ملے گا۔





(اشفاق احمد - زاویہ 2)


thumbnail

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو











ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو

جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو



ساعتِ چند کے مسافر سے

کوئی دم اور گفتگو لوگو



تھے تمہاری طرح کبھی ہم لوگ

گھر ہمارے بھی تھے کبھو لوگو



ایک منزل سے ہو کے آئے ہیں

ایک منزل ہے رُوبُرو لوگو



وقت ہوتا تو آرزو کرتے

جانے کس شے کی آرزو لوگو



تاب ہوتی تو جتسجُو کرتے

اب تو مایوس جستجُو لوگو



(ابنِ انشا)


thumbnail

برطانوی شہر میں بغیر ڈرائیور کاریں چلیں گی








برطانیہ کے شہر ملٹن کینز کی سڑکوں پر 2015 سے بغیر ڈرائیور کے کاریں چلنا شروع کر دیں گی۔ بی بی سی لے مطابق برطانیہ کے بزنس سیکرٹری ونس کیبل نے اعلان کیا ہے کہ 20 کے قریب بلا ڈرائیور گاڑیاں ملٹن کینز کے مرکز میں مخصوص سڑکوں پر چلا کریں گی۔





منصوبے کے مطابق 2017 کے وسط میں سو کے قریب مکمل طور پر خودکار کاریں شہر میں کام کر رہی ہوں گی جو پیدل چلنے والوں کے ساتھ ساتھ راستوں پر چلا کریں گی جن میں ٹکراؤ سے بچنے کے لیے سنسرز لگے ہوئے ہوں گے۔






بغیر ڈرائیور کے ان گاڑیوں میں دو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی اور یہ بارہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی۔ ان گاڑیوں میں ایسی سکرینیں لگی ہوں گی جن پر مسافر انٹرنیٹ استعمال کر سکیں گے اور اپنی ای میل وغیرہ چیک کر سکیں گے۔ ابتدا میں ان گاڑیوں پر مسافر سوار ہو کر ریلوے سٹیشن سے شہر کے مرکز تک کا فاصلہ طے کرے گا جو ایک میل کی چڑھائی ہے اور اس پر پیدل بیس منٹ لگتے ہیں.





نسان، ٹویوٹا اور وولوو جیسی دنیا کی بڑی کاریں بنانے والی کمپنیاں بغیر ڈرائیور کے کاریں بنانے پر تحقیق کر رہی ہیں۔اگست میں وولوو نے ایک ایسی کار کا تجربہ کیا تھا جو دو بٹن دبانے پر ڈرائیور سے بریک، انجن اور سٹیئرنگ کا اختیار لے لیتی ہے۔


thumbnail

خدا کی محبت









اس مبہم اور غیر واضح دور میں جب ہمارے دلوں میں دشمنیاں پیدا ہو چکی ہیں جب ہمارےضمیر مردہ ہو چکے ہیں جہاں نفرت و عداوت اپنے عروج پر ہے تو بات بالکل واضح ہے کہ ہمیں محبت اور رحمدلی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پانی اور ہوا کی۔ ایسے لگتا ہے ہم محبت کو بھلا چکے ہیں اور اس سے بڑھ کرشفقت اور کرم ایسا لفظ ہے جو خال خال نظر آتا ہے۔ ہمارے اندر نہ ہی اپنےلئے رحمدلی ہے نہ ہی دوسرے لوگوں کیلئے محبت ہے۔ ہمارے اندر نرمی کا احساس ختم ہو تا جا رہا ہے ہمارے دل سخت ہو چکے ہیں اور ہمارا اردگرد عداوت کے سیاہ بادلوں سے ڈھک چکاہے۔ اسی وجہ سے ہر چیز اور ہر شخص مبہم نظر آتا ہے۔ دنیا میں برداشت اورتحمل کو نقصان پہنچانے والے بہت زیادہ ظالم موجود ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ جنگ کرنے کے بہانےاور مختلف جھوٹوں کے ذریعے دوسروں کو بدنام کرنے کے طریقے ڈھونڈھتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو زندان، پنجہ اور ایسے الفاظ سےیاد کرتے ہیں جو خون کھولا دیتا ہے۔



یہ افراد اور لوگوں کے بیچ خطرناک قسم کی تفریق ہے ہم اپنے جملوں کو'ہم'، 'تم' اور 'دوسرے"سےشروع کرتے ہیں۔ ہماری نفرت کبھی ختم نہیں ہو تی۔ ہم اپنی صفیں متلا دینے والے طریقے سے ختم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم جاری رکھیں گے لیکن پھر بھی ایسے احساسات برقرار رکھتے ہیں جومستقبل میں اختلافات کو جنم دیں۔ ہم ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں اور جدائی اور دوری ہمارے ہر عمل سے عیاں ہو تی ہیں۔ ہم کٹی ہوئی مالا کی طرح ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم غیرمسلموں سے زیادہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔



حقیقت میں ہم نے اپنے خدا کو بھلا دیا ہے جس کے نتیجے میں اس نے ہمیں بکھیر دیا ہے۔ چونکہ ہم نے اس پر ایمان اور محبت کو چھوڑ دیا ہے اس لئے اس نے ہمارے دلوں سے محبت کا احساس چھین لیا ہے۔ ہم اپنے آغوش کی گہری کھائی میں جو کچھ کر رہے ہیں اور جہاں اس کی خواہش میں مبتلا ہیں یہ سب اسی کم عقلی پر مبنی "میں"، "تم" اور ایک دوسرے کو" کافر اجڈ" کا لیبل لگانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پر غضب ہوا ہےجس سے کہ ہم محبت کرنے اور کئے جانے سے محروم ہو گئے ہیں۔ اور ہم کرم اور شفقت کو گھن لگا رہے ہیں۔ ہم اس سے پیار نہیں کرتے تو اس نے ہم سے پیار چھین لیا۔ پتہ نہیں اس میں کتنا وقت لگے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اسکی طرف متوجہ ہو کر اس سے محبت نہیں کرٰیں گے وہ ہماری آپس کی محبت ہمیں عطا نہیں کرے گا۔ وہ راہیں جن پر ہم چل رہے ہیں وہ اس تک بالکل نہیں پہنچا تیں۔ اس کے برعکس اس سے دور لے جا رہی ہیں۔ وہ نفوس جو اس کی محبت کی نہروں کا منبع تھے آج بالکل ویران ہٰیں۔ ہمارے دل خشک صحراؤں کی طرح ہیں۔ ہماری اندر کی دنیا میں غار بن چکے ہیں جیسے جانوروں کے کچھار ہو تے ہیں ۔ ان سب منفی باتوں کا علاج صرف اور صرف خدا کی محبت ہے۔خدا کی محبت ہر چیز کی بنیاد ہے اور تمام محبتوں کیلئے خالص ترین اور صاف ترین ذریعہ ہے۔ انسانی رشتےصرف اسی وقت بنیں گے جب اس سے ہمارا رشتہ استوار ہو گا۔ خد کی محبت ہمارا ایمان، یقین جسم میں داخل روح کی طرح ہے۔ اس نے ہمیں جینا سکھایا اگر آج ہم زندہ ہیں تو صرف اسی وجہ سے زندہ ہیں۔ ہر وجود کی بنیاد اس کی محبت ہے اور آخر میں خدا کی الہی محبت کی وسعت بشکل جنت عطا ہو تی ہے۔ جو کچھ اس نےپیدا کیا ہے وہ محبت پر مبنی ہے اور اس نے انسان کے اپنے ساتھ تعلق کو محبوب ہو نے کے مقدس جذبے میں رکھ دیا ہے۔



(یہ تحریر ترک مصنف جناب محمد فتح اللہ گولن کے مضمون "انسان پرستی اور انسانی محبت" سے لی گئی ہے)


thumbnail

وادیٔ کونش –قدرتی حسن سے مالامال ایک دلکش تفریحی مقام













اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں نوازاہے۔ اس کے فلک بوس پہاڑ، شور مچاتے دریا،جھیلیں، سمندر، سبزہ زار، اور بے پناہ قدرتی حسن پاکستان کودنیا بھر کے سیاحوں کے لئے گوشہ ٔجنت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ سوات، مرغزار،کالام، مالم جبہ، کاغان، ناران، شوگراں، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، مری، کلرکہار، وادیٔ سون،ہنزہ ، کالاش اور شمالی علاقہ جات اپنی اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔ انہیں میں سے ایک مقام وادیٔ کونش بھی ہے۔ پاکستان کی یہ خوبصورت وادی اپنے دلفریب اور دل موہ لینے والے مناظر ،صحت بخش آب و ہوا، بلند و بالا پہاڑ، دیدہ زیب اور دل کشا مرغزاراور جنگلات ،جازبِ نظر آبشار، حد درجہ خوبصورت، پُر اسرار اور طسلماتی نیلگوں جھیلوں کے باعث جنت اراضی کا درجہ رکھتی ہے ۔وادی ٔکونش مانسہرہ شہر کے شمال واقع ہے۔




دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ ِقراقرم جو شاہراہِ ریشم کے نام سے بھی مشہور ہے اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ یہ بین الاقوامی شاہراہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے اور ہنزہ، گلگت، چلاس، داسو، بشام، بٹ گرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔






یہ وادی اسلام آباد کے شمال میں تقریباً ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ مانسہرہ سے اس کی مسافت محض پچاس کلومیٹر ہے۔اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ ٹیکسلا اور پھر حسن ابدال سے شاہراہ قراقرم کے ذریعے ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور شنکیاری سے ہوتے ہوئے آپ اس دلکش وادی میں پہنچ سکتے ہیں۔ راستے میں بل کھاتی ندیاں، سرسبز وادیاں اور چیڑ کے درخت سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑدیتے ہیں ۔ قراقرم ہائی وے کے ذریعے اس وادی میں داخل ہوتے ہی آپ پہاڑوں کی گود میں واقع ایک سرسبز وشاداب شہر بٹل پہنچ جائیں گے۔ بٹل 1857کی جنگ ِآزادی کے حوالے سے ایک تاریخی حیثیت کا حامل ایک خوبصورت شہر ہے۔ بٹل سے بذریعہ سڑک صرف پانچ منٹ کی مسافت پر وادیٔ کونش کا ایک حسین اور دلکش مقام چھترپلین آتا ہے اور اس سے آگے ضلع بٹ گرام کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ وادی کونش ،بٹل اور چھترپلین کے مشرق میں برف سے ڈھکی ایک بلند پہاڑی چوٹی موسیٰ کا مصلیٰ اور وادیٔ کاغان، مغرب میں وادیٔ سوات، شمال میں ضلع شانگلہ کا ایک خوبصورت علاقہ بشام جبکہ جنوب میں شنکیاری کے خوبصورت مقامات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک طرف موسیٰ کا مصلیٰ اپنے جلوے دکھا کر باہمت سیاحوں کو اپنی چٹانوں پر آنے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری جانب سوات اور کاغان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وادیٔ کونش کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ 






وادی کونش اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے کچھ یوں وضاحت ِ طلب ہے کہ اس کے مشرق میں درہ بھوگڑ منگ واقع ہے جس میں دھڑیال ۔سُم ڈاڈر ، جبوڑی ،نواز آباد ، سچہ کلاں جیسے خاص خاص مضافات ہیں ۔ جبکہ مغرب میں وادی اگرور جسے عرفِ عام میں میدانِ اگرور بھی کہا جاتا ہے کے مشہور و معروف گاؤں کھبل، شمدھڑہ ، اوگی ، دلبوڑی ، شیرگڑھ ، اور تربیلہ جھیل واقع ہیں ۔ شمال مغرب میں کوزہ بانڈہ ، کے چھوٹے مضافات اور بستیاں واقع ہیں جبکہ جنوب میں مانسہر شہر ، ہزارہ یونیورسٹی ، عطر شیشہ ، کا وسیع و عریض علاقہ اپنے اپنے قدرتی مناظر کو سموئے ہوئے ہیں ۔



وادیٔ کونش کے گردونواح کاہرعلاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے قدرتی مناظر کا ایک دلکش سلسلہ پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ بہار کاموسم ان قدرتی مناظر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ پہاڑ، جنگلات اور خوبصورت بل کھاتے ندی نالے اس وادی کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ یہاں پہاڑوں کے درمیان ایک دریا گزرتا ہے جسےمقامی آبادی دریائے کونش ، کٹھا اور بٹ کَس کے ناموں سے پکارتے ہیں ۔ یہ دریا اس وادی کی خوبصورتی اور رعنائی کو مزید بڑھا تا ہے ۔ اس وادی میں چھترپلین ، بٹل اور مضافاتی علاقے سیاحوں کے لئے نہایت کشش اور جاذبیت کے حامل ہیں۔یہ علاقہ شہد، مرغ اور مچھلی کی فارمنگ کیلئے بھی نہایت موزوں ہے۔



وادیٔ کونش جغرافیائی لحاظ سے بہت خوبصورت علاقہ ہے۔موسمِ گرما میں بھی یہاں رات کا آخری پہر سرد ہوتا ہے حتیٰ کہ لحاف یا کمبل میں بھی ٹھنڈ لگتی ہے۔ یہ علاقہ شہد، مرغی اور مچھلی فارمنگ کیلئے بھی انتہائی موزوں ہے۔


thumbnail

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے











خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو



یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو



یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو



گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو



خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو



ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو



خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو



(احمد ندیم قاسمی​)


thumbnail

شیخ الاطباء-ابن سینا







شیخ الرئیس بو علی سینا ابن سینا (AVICENNA) کا پورا نام "ابو علی الحسین ابن عبداللہ ابن علی سینا"تھا۔ یہ بخارا کے قریب افشنہ نامی قصبے میں 980ء میں پیدا ہوا۔ تعلیم و تربیت کے لیے اس کے والد نے "شیخ اسمٰعیل زاہد"کے سُپرد کر دیا۔ دس سال کی عمر میں ہی اس نے قرآن حفظ کر لیا اور فنِ ادب پر دسترس حاصل کر لی۔ بعد ازاں اس نے ایک سبزی فروش سے علم ریاضی اور ایک نصرانی عالم "عیسیٰ بن یحییٰ"سے علم طب سیکھا۔ ان علوم کے علاوہ بھی اسے منطق، موسیقی، شاعری، طبیعات، الہیاٰت، ہیئت، کیمیا اور علم الخواص اشیاء پر عبور حاصل تھا۔ شیخ کی علمی قابلیت اور ذہانت کا کچھ ہی دنوں میں دور دور تک شہرہ ہونے لگا۔ انہیں دنوں امیر بخارا "نوح بن منصور" ایک سخت مرض میں مبتلا ہوا۔ اس کے مقرب اطباء علاج سے قاصر رہے۔ امیر کے علاج کی غرض سے ابن سینا کو بلایا گیا۔ اس نے چند ہی دنوں میں امیر بخارا کو اس مرض سے نجات دلا دی۔ امیر بخارا نے خوش ہو کر اسے اپنا طبیب خاص مقرر کر لیا۔



شیخ ابنِ سینا کی پوری زندگی تعلیم و تعّلم اور علاج معا لجہ میں گزری۔ اس کی تصانیف کے مطالعہ سے اس کی ذہانت اور غیر معمولی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اہل یورپ نے بو علی سینا کے کارناموں کی جو قدر کی اس سے پوری دُنیا واقف ہے۔ اس کی ہمہ گیر شخصیت نے مشرق و مغرب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں جس کی وجہ سے مورخین نے اسے زبر دست خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اسے "شیخ الاطباء"اور "شیخ الرئیس" جیسے معزز القاب سے نوازا۔



مشہور جملہ ہے کہ "علم طب ناقص تھا ابن سینا نے اسے مکمل کیا۔"اس نے علمِ طب میں نئے نئے وسائل ایجاد کیے اور جو نقائص اور خامیاں نظر آئیں انہیں دور کر کے اس فن کو ایک مکمل علم کی صورت میں پیش کیا گویا علمِ طب میں اسے مجتہد کا درجہ حاصل ہے۔ ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے قناطیر (Catheter)، علم بتر (Amputation) اور دماغی امراض کے لیے برف کی ٹوپی (Ice cap) کا استعمال کیا۔ اس کے علاوہ اس نے آنکھوں کے ناسور کے علاج کا طریقہ



شیخ الرئیس ابن سینا کثیر التصانیف اور ماہر علم جراح تھے۔ "کتاب الشفاء" اور "القانون فی الطب" آج بھی فظعیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ "القانون فی الطب"ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کا اصل نسخہ پہلی مرتبہ روم سے 1593ء میں شائع ہوا۔ اس طرح عربی زبان کی یہ پہلی کتاب ہے جو شائع ہوئی۔ اس کے بعد روسی اور فرانسیسی زبان میں بھی اس کے تراجم ہوئے اور صدیوں تک یورپ کی مختلف طبی درس گاہوں میں شامل نصاب رہی۔ مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ بھی "الارشادات"، "کتاب النجات"، "الادویۃ القلبیہ" اور "الار جوزہ فی الطب" "کتاب السیاست"، "تہافتہ التہافتہ"، "منطق المشرکین و القصیدہ المزدوج فی المنطق" کافی مشہور ہیں۔ سرجری سے متعلق اس کا رسالہ"رسالہ فی الفصد"آج بھی ملک کی متعدد لائبریریوں میں محفوظ ہے۔ ابنِ سینا جہاں دیگر علوم اور علمِ طب میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہیں فنِ جراحی میں بھی وہ یکتا تھا۔ اتنی خوبیوں کا ما لک 1037ء میں 57 برس کی عمر میں ایران کے شہر ہمدان میں اس دارفانی سے کوچ کرگیا اور اپنے پیچھے بے شمار ایجادات اور تصانیف کا خزانہ چھوڑ گیا تاکہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کریں۔





(از: طالب انصاری - اجالے ماضی کے)


thumbnail

جنگل میں محفل مباحثہ








ایک صوفی تھکا ہارا جنگل میں جا رہا تھا اور چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں جنگل کے جانوروں کا اجتماع تھا اور محفل مباحثہ گرم تھی ۔ اس صوفی کو چونکہ جانوروں کی بولیوں کا علم تھا اس لیے وہ رک کر سننے لگا ۔ مباحثے کی صدارت ایک بوڑھے شیر کی سپرد تھی۔




سب سے پہلے لومڑی اسٹیج پر آئی اور کہا برردارنِ دشت سنئے اور یاد رکھئے کہ "چاند سورج سے بڑا ہے اور اس

زیادہ روشن ہے"۔ ہاتھی نے اپنی باری پر کہا " گرمیاں سردیوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں۔"




جب باگھ اسٹیج پر آیا تو سارے جانور اس کی خوبصورتی سے مسحور ہو گئے ۔ اس نے اپنے پیلے بدن پر سیاہ دھاریوں کو لہرا کر کہا "سنو بھائیو ! دریا ہمیشہ سے اوپر کو چڑھتے ہیں۔" 




صوفی نے شیر ببر سے کہا صاحبِ صدر! یہ سب غضب کے مقرر ہیں اور ان کی وضاحت نے اس محفل کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ سارے مقررین نے سارے ہی بیان غلط دیئے ہیں اور ہر بات الٹ کہی ہے۔ سامعین کو یا تو پتہ نہیں یا انہوں نے توجہ نہیں دی یا پھر وہ لا تعلقی سے سنتے رہے ہیں ۔ ایسی احمقانہ اور غلط باتیں کرنے کی کس نے اجازت دی۔





شیر نے کہا " صوفی صاحب ! یہ واقعی ایک عیب دار بات ہے اور شرمناک بات ہے لیکن ہمارے سامعین انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں انلائنمنٹ نہیں ۔ پتہ نہیں ہم کو یہ عادت کیسے پڑی لیکن پڑ گئی ہے صوفی صاحب "۔ 





(اشفاق احمد کی کتاب "بابا صاحبا" سے اقتباس)